سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا

سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا
چلا گیا جو مسافر کبھی نہیں آیا


ہر ایک شے مرے گھر میں اسی کے ذوق کی ہے
جو میرے گھر میں بظاہر کبھی نہیں آیا


یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا


مکاں ہوں جس میں کوئی بھی مکیں نہیں رہتا
شجر ہوں جس پہ کہ طائر کبھی نہیں آیا