سخاوت

سخاوت ہے نیکی کا اک بہتا دریا
کہ بچو بخالت ہے خود جلتا صحرا
سخاوت میں حاتمؔ کا ثانی نہیں ہے
سخاوت امر ہے یہ فانی نہیں ہے
سخاوت امیروں پہ ہے فرض بچو
غریبوں کا یہ حق ہے تم آج سن لو
سخاوت ہے ایمان کا ایک حصہ
ہے برکت کا ذریعہ سخاوت کا سایہ
سخی کا ہے کیا مرتبہ تم یہ جانو
ہے جنت میں اس کی جگہ تم یہ مانو
میاں ہوگی ہر وقت رب کی عنایت
کفایت کے ہمراہ کر لو سخاوت
اے حافظؔ سخاوت ہر اک لمحہ کرنا
سخی بن کے جینا سخی بن کے مرنا