سحرؔ بے ثباتی کو ہم کم نہ سمجھے
سحرؔ بے ثباتی کو ہم کم نہ سمجھے
خوشی کو خوشی غم کو ہم غم نہ سمجھے
جنوں کے تقاضے خرد کے اشارے
کبھی تم نہ سمجھے کبھی ہم نہ سمجھے
تجھے ہم مسیحا نفس در حقیقت
نہ سمجھے اگر ابن مریم نہ سمجھے
محبت کا عالم خدائی کا عالم
نہ سمجھے اگر تم یہ عالم نہ سمجھے
سحرؔ اس سے پھر کوئی کیوں کر نباہے
جو عہد محبت کو محکم نہ سمجھے