صفا اور صدق کے بیٹے

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
سواد شرق کا اک شہر
تاریکی میں ڈوبا تھا
اچانک شور سا اٹھا
زمیں جیسے تڑخ جائے
ندی میں باڑھ آ جائے
کوئی کوہ گراں جیسے جگہ سے اپنی ہٹ جائے
بڑا کہرام تھا
خلقت
متاع و مال سے محروم ننگے سر
گھروں سے چیخ کر نکلی
مگر آل صفا و صدق کے خیمے نہیں اکھڑے
وہ اپنی خواب گاہوں سے نہیں نکلے
روایت ہے
صفا و صدق کے بیٹے
ہمیشہ رات آتے ہی
حصار حمد
اپنے چار جانب کھینچ لیتے تھے
مقدس آیتوں کو اپنے پہ دم کر کے سوتے تھے
روایت ہے
بلائیں ان کے دروازوں سے
واپس لوٹ جاتی تھیں
سواد شرق کا وہ شہر
اس شب ڈھیر تھا لیکن
صفا و صدق کی اولاد کے خیمے نہیں اکھڑے