صدائے دل
سچا جھوٹھا جھوٹھا سچا
وعدہ اک نادان کا ہے
جلتے جلتے راکھ ہوا
میرا مکاں امکان سا ہے
پتے ٹہنی شجر جو ٹوٹے
مسئلہ یہ طوفان کا ہے
ریت ریت بن اڑتا جائے
وہ جو کہے چٹان سا ہے
ندی پرندے عنبر بولے
سننا اس کی زبان کا ہے
سنا میں نے دو بار سنا
تیسرا اک گمان سا ہے
کھیل نفرت کا ٹھیک نہیں
وہ تیرے ہی زیان کا ہے
دھرم محبت جو اپنائے
وہ انسان انسان سا ہے