سچ تو یہ ہے کہ دیدہ ور ہو تم
سچ تو یہ ہے کہ دیدہ ور ہو تم
بے خبر ہم ہیں با خبر ہو تم
واقف راز خیر و شر ہو تم
خوش خیال اور خوش نظر ہو تم
آشنائے رموز کن فیکن
راز ہستی سے با خبر ہو تم
جس سے روشن ہے مطلع امید
شام غربت میں وہ سحر ہو تم
کون ہے یہ حریف شعلۂ طور
اے میں قربان جلوہ گر ہو تم
دشت غربت میں راہ ہستی میں
میں سمجھتا ہوں ہم سفر ہو تم
ایک نسبت ہے نسبت موہوم
بے نوا میں ہوں تاجور ہو تم
رازؔ دو عیب ہیں یہی تم میں
صاف گو اور حق نگر ہو تم