مری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے
مری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے
نظر پڑتی ہے جس شے پر خدا معلوم ہوتی ہے
سراپا سوز لیکن جاں فزا معلوم ہوتی ہے
صدائے ساز دل حق کی صدا معلوم ہوتی ہے
بہت خوش ظرف و خوش بیں ہے فضائے وادیٔ غربت
بظاہر ہمدم و درد آشنا معلوم ہوتی ہے
یہ کیسی زندگی ہے اے اسیر دام خوش فہمی
جفائے باغباں بھی اب وفا معلوم ہوتی ہے
میں اس منزل میں ہوں اب گام فرسا اے زہے قسمت
نگاہ راہزن بھی رہنما معلوم ہوتی ہے
یہ رنگ شعر گوئی راز یہ طرز غزل خوانی
تری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے