سب اٹھ جائیں گے پردے درمیاں سے
سب اٹھ جائیں گے پردے درمیاں سے
اشارہ تو کریں وہ لا مکاں سے
چنے تا عمر کانٹے گلستاں سے
کبھی اجرت نہ مانگی باغباں سے
بہت اونچا سہی وہ عرش لیکن
بہت نیچا ہے تیرے آستاں سے
مرے حسن تخیل کے کرشمے
ترے جلوے نکلتے ہیں یہاں سے
اڑا دو گرد میخانے کی رندو
لڑا دو آسماں کو آسماں سے
سراپا گوش بر آواز ہوں میں
نہ جانے دی صدا اس نے کہاں سے
کبھی تو جھانک میخانے میں زاہد
نظر آ جائے گی جنت یہاں سے
مصورؔ آپ ہے تصویر اپنی
سنا تصویر گویا کی زباں سے