آتی نہیں ہے منزل دار و رسن ابھی

آتی نہیں ہے منزل دار و رسن ابھی
پھر بھی چلا ہوں باندھ کے سر سے کفن ابھی


صحرا نوردیاں ہیں نہ سیر چمن ابھی
شاید جنوں سے دور ہے ذوق وطن ابھی


سائے میں ہوں میں کیا شجر سایہ دار کے
ہر قصر میرے حال پہ ہے خندہ زن ابھی


یہ بات کیا کہ عقدۂ مشکل نہ کھل سکے
پہنچا نہیں عروج پہ دیوانہ پن ابھی


محفل میں چھیڑ چھاڑ پتنگو یہ بے محل
ہے وقف گریہ شمع سر انجمن ابھی


ہم سن سکے نہ قلقل مینا کے شور میں
کچھ کہہ رہا تھا ساغر توبہ شکن ابھی


تصویر سے کسی کی مصورؔ ہے ہم کلام
تھم جا ذرا تو گردش چرخ کہن ابھی