روز روشن کو شب تار نہ کہنا آیا
روز روشن کو شب تار نہ کہنا آیا
رات کو مطلع انوار نہ کہنا آیا
کی ہے دنیا نے اسی پر تو عداوت ہم سے
صاف جملہ پس دیوار نہ کہنا آیا
اپنے اس جرم پہ اظہار ندامت کیسا
دشت پر خار کو گلزار نہ کہنا آیا
بال و پر کاٹ دیے اہل گلستاں نے مرے
چوب کو شاخ ثمر دار نہ کہنا آیا
قصر تخریب کی تعمیر ہے جن کے ہاتھوں
ہاں انہیں وقت کے معمار نہ کہنا آیا