روز چھپتی ہے یہ خبر تازہ

روز چھپتی ہے یہ خبر تازہ
جل گئے بے گھروں کے گھر تازہ


یوں مسلط درندگی ہے یہاں
خون پی کر ہوا بشر تازہ


تیرہ و تار لیلئ شب سے
پھوٹتی ہے نئی سحر تازہ


اشک بہتے ہیں چشم غربت سے
ہاتھ میں ظلم کے ہے زر تازہ


درد میں بھیگتا رہا ساحل
موج کرتی رہی سفر تازہ


کیسے پرواز فکر میں ہو جمود
ہیں ابھی فن کے بال و پر تازہ


درد و غم کے گہن میں جل کر بھی
قدسیؔ رقصاں رہا قمر تازہ