ردائیں چلیں خاک دانوں کی جانب

ردائیں چلیں خاک دانوں کی جانب
وفائیں کھلے سر دکانوں کی جانب


ترے ہر ستم پر یوں ہی بے ارادہ
نظر اٹھ گئی آسمانوں کی جانب


عجب ہے یہ کار سخن شعر گوئی
دھکیلے ہے رطب اللسانوں کی جانب


نظر سرسرائی بدن پر یوں میرے
بڑھے سانپ جیسے خزانوں کی جانب


مرا عشق کہتا ہے مجھ سے کہ آ جا
تجھے لے چلوں میں اڑانوں کی جانب


ابھی طفل مکتب ہوں اور نا اہل بھی
کدھر لے چلے امتحانوں کی جانب


شب تار کچا گھڑا ایک دریا
میں بڑھنے لگی داستانوں کی جانب


تو ملبے سے میرے ہی تعمیر ہوگا
گرا کے مجھے بڑھ مکانوں کی جانب


میری راہ چننا کہ اب میں رواں ہوں
وفاؤں کے روشن نشانوں کی جانب


یہ ناد علی کا عجب معجزہ تھا
سبھی تیر پلٹے کمانوں کی جانب