عشق نے دائرہ بنا رکھا
عشق نے دائرہ بنا رکھا
رقص میں پھر مجھے سدا رکھا
نیم خوابیدہ اس کی آنکھوں پہ
ہوش والوں نے سب لٹا رکھا
خانۂ دل میں دھڑکنوں نے سدا
ورد بس لا الہ کا رکھا
میں نے پوچھا جو اپنے بارے میں
اس نے پھولوں میں آئنہ رکھا
دیپ رکھے ہیں چار سمتوں میں
پانچویں در پہ دل جلا رکھا
ہم نے تا عمر تیری راہوں میں
فرش دل اور جاں بچھا رکھا
عشق میں آشنا پرستوں نے
اک صنم ایک ہی خدا رکھا
وقت رخصت تھا مجھ میں بین مگر
قہقہے نے بھرم مرا رکھا
سنگ باری میں وہ بھی شامل تھا
تخت پر جس کو تھا بٹھا رکھا
نیلا پڑنے لگا بدن میرا
آستیں میں یہ تو نے کیا رکھا
پھر تھکی ہاری ایک خواہش نے
زانوئے شب پہ سر کو جا رکھا
اس پہ مرتی جو نہ تو کیا کرتی
جس نے اپنا مجھے سدا رکھا
ہم بھی تصویر سے نکل آئے
اس نے بھی بازووں کو وا رکھا
روح کی بے قراری پر تو نے
ہاتھ رکھا کہ معجزہ رکھا
کاسۂ دل میں اک سوالی نے
چوم کر ایک نقش پا رکھا
میرے مالک کی مہربانی نے
مجھ پہ توبہ کا در کھلا رکھا
ایک سوکھا ہوا شجر جیناؔ
غم نے تیرے ہرا بھرا رکھا