ردائیں چلیں خاک دانوں کی جانب
ردائیں چلیں خاک دانوں کی جانب وفائیں کھلے سر دکانوں کی جانب ترے ہر ستم پر یوں ہی بے ارادہ نظر اٹھ گئی آسمانوں کی جانب عجب ہے یہ کار سخن شعر گوئی دھکیلے ہے رطب اللسانوں کی جانب نظر سرسرائی بدن پر یوں میرے بڑھے سانپ جیسے خزانوں کی جانب مرا عشق کہتا ہے مجھ سے کہ آ جا تجھے لے چلوں ...