بیزار ہوں میں دل سے دل بھی ہے مجھ سے نالاں (ردیف .. ے)

بیزار ہوں میں دل سے دل بھی ہے مجھ سے نالاں
ہم دونوں میں سے کوئی تنہائی چاہتا ہے


میرے لئے وفائیں لازم بتا رہا ہے
اپنے لئے رعایت ہرجائی چاہتا ہے


باد سموم تیرا مارا ہوا ہے یہ دل
پھاگن کے موسموں کی پروائی چاہتا ہے


مدہوش کر دے ساقی تو چشم نازنیں سے
مے کش نظر کی بادہ پیمائی چاہتا ہے