روشنی لے کے کہیں چاند کہیں تاروں سے
روشنی لے کے کہیں چاند کہیں تاروں سے
ہم بھی گزرے تھے کبھی وقت کے بازاروں سے
زندگی تجھ سے ترے غم سے تو انکار نہیں
ہاں مگر لذت غم چھن گئی غم خواروں سے
عظمت رفتہ کی مٹتی ہوئی تصویر ہیں ہم
ہم کو لٹکائیے گرتی ہوئی دیواروں سے
اس سے پہلے کہ چھڑے ذکر وفا پیار کی بات
مشورہ کر لو ذرا وقت کی سرکاروں سے
چاند جس وقت اتر آتا ہے پیمانوں میں
میکدے بات کیا کرتے ہیں مے خواروں سے
ہم کو بے دام بھی بک جانے کا فن آتا ہے
بات کہنے کی نہیں ہے یہ خریداروں سے
وہی تنہائی کی باتیں ہیں وہی ذات کے غم
مجھ کو شکوہ ہے مرے دور کے فنکاروں سے
ابر رحمت کو لئے اپنی نظر میں خسروؔ
ہم بھی تو دشت سے گزرے کبھی کہساروں سے