رسم دنیا کو نبھاتے جائیے
رسم دنیا کو نبھاتے جائیے
غم کو سینے سے لگاتے جائیے
بذلہ سنجی سے نہ باز آئے اگر
ہم نہ لوٹیں گے بلاتے جائیے
حکم نو اک اور جاری ہو گیا
چوٹ کھا کر مسکراتے جائیے
خاک نظروں میں ہماری جھونکیے
خاک میں ہم کو ملاتے جائیے
آئنہ ہو کر رہوں گی آپ کا
میری نظروں میں سماتے جائیے
ظلمت شب کو سجا کر طاق پر
اک دیا خود بھی جلاتے جائیے
ہے اٹھانے کی سکت جو آپ میں
تہمت دنیا اٹھاتے جائیے
رت جگے رضیہؔ سے اب ہیں ملتمس
یاد کو اپنی سلاتے جائیے