رنگیں ادائے دہر کی گردن مروڑ دو

رنگیں ادائے دہر کی گردن مروڑ دو
ناسور زندگی ہے تو زخموں کو پھوڑ دو


افسردہ راہگیر کا ہے یہ سکوں رسا
پیپل کی سمت سے ذرا تیشے کو موڑ دو


ہے ناز سنگ کو کہ وہی اک ہے وجہ زخم
شیشے کو آج اس کے مقابل میں چھوڑ دو


یادوں کی شب یہ کہتی ہے انوار صبح سے
زندہ نقوش ہوں گے تسلسل کو توڑ دو


گر چاہو موج زیست سدا دوڑتی رہے
سر مثل بحر سینۂ ساحل پہ چھوڑ دو


دامن کے سرخ رنگ پہ اتنا ملال کیوں
آلودہ خوں سے ہے تو پکڑ کر نچوڑ دو


بام تخیلات کو چھونا ہے گر تمہیں
قدسیؔ ہر ایک لفظ کی دیوار توڑ دو