رنگ پر جب وہ بزم ناز آئی
رنگ پر جب وہ بزم ناز آئی
ہم اٹھے لے کے درد تنہائی
کس سے پوچھیں طلسم ہستی میں
ہم تماشا ہیں یا تماشائی
تھا غم عشق جاں گداز مگر
کچھ اسی غم نے کی مسیحائی
ہائے کس سادگی سے سیکھا ہے
حسن نے اہتمام رعنائی
آخر شب زبان شمع پہ ہے
داستان ہجوم تنہائی
چند خونیں جگر ہوئے رسوا
مسکرایا چمن بہار آئی
چپ رہے ہم تو خوں ہوا دل کا
بات کی ہے تو آنکھ بھر آئی
ہائے اس دور عقل و دانش نے
کر دیا آدمی کو سودائی
ہم چمن میں نہ تھے تو خود ہی روشؔ
بوئے گل دشت تک چلی آئی