شبنم

کیا یہ تارے ہیں زمیں پر جو اتر آئے ہیں
یا وہ موتی ہیں کہ جو چاند نے برسائے ہیں
کیا وہ ہیرے ہیں جو صحرا نے پڑے پائے ہیں
نہ بہت دور پہنچ جائے مری بات کہیں
اپنے آنسو تو نہیں بھول گئی رات کہیں


یہ کہانی بھی سنائی ہے زمیں نے اکثر
کہکشاں جاتی ہے جب پچھلے پہر اپنے گھر
پھینکتی جاتی ہے ہنستی ہوئی لاکھوں گوہر
اور ہر صبح کو یہ کھیل رچا جاتا ہے
ان کو خورشید کی پلکوں سے چنا جاتا ہے


یہ بھی سنتے ہیں کہ یہ سات سمندر ہر روز
شفق شام کی کشتی میں سجا کر ہر روز
نذر دیتے ہیں ثریا کو یہ گوہر ہر روز
پھر ثریا انہیں ہنس ہنس کے لٹا دیتی ہے
خوب چنتی ہے زمیں اور دعا دیتی ہے


جس طرح باغ کے پھولوں کو چمن پیارا ہے
بن میں جو کھلتی ہیں کلیاں انہیں بن پیارا ہے
یوں ہی شبنم کو بھی اپنا ہی وطن پیارا ہے
کہکشاں روز بلا کر اسے بہکاتی ہے
پر یہ دامن میں زمیں کے ہی سکوں پاتی ہے