کیا ستم کر گئی اے دوست تری چشم کرم
کیا ستم کر گئی اے دوست تری چشم کرم
جیسے تیرے نہیں دنیا کے گنہ گار ہیں ہم
کوئی عالم ہو بہرحال گزر جاتا ہے
ہم نہ سرگشتۂ راحت ہیں نہ آشفتۂ غم
تری زلفوں کی گھنی چھاؤں بہت دور سہی
جادہ پیما ہیں حوادث کی کڑی دھوپ میں ہم
نکہت گل سے کچھ اس طرح ملاقات ہوئی
یاد آیا تری بیگانہ وشی کا عالم
ہم ہیں طوفان ملامت ہے گلی ہے تیری
حسن تقدیر سے ہوتے ہیں یہ حالات بہم
لے گیا عشق کسی شاہد نادیدہ تک
مدتوں ذوق پرستش نے تراشے تھے صنم
ہم نے ہر عقدۂ دشوار کا منہ چوم لیا
کتنے دل کش ہیں تری زلف گرہ گیر کے خم
کوئے قاتل ہی سہی منزل راحت نہ سہی
تھک کے بیٹھے ہیں کہ آتے ہیں بہت دور سے ہم
کوئے جاناں میں کہیں آج تو ہم بھی تھے روشؔ
شکر ہے ہم کو نہ پہچان سکے دیر و حرم