مہاتما گاندھی

مسافر ابدی کی نہیں کوئی منزل
یہاں قیام کیا یا وہاں قیام کیا
تری وفا نے بڑے مرحلے کئے آساں
فروغ صبح کو تو نے فروغ کام کیا
صنم کدوں میں بڑھا اعتبار اہل حرم
حرم نے دیر نشینوں کا احترام کیا
حیات کیا ہے محبت کی آگ میں جلنا
یہ راز بھی ترے سوز وفا نے عام کیا
اٹھا اٹھا کے حجابات چہرۂ منزل
مسافران صداقت کو تیز گام کیا
گزر کے دانش حاضر کے آسمانوں سے
بلند سادگی عشق کا مقام کیا
ملا جو دست‌‌‌ حوادث سے زہر بھی تجھ کو
بڑے خلوص سے تو نے شریک جام کیا
وہ درد تیری خموشی میں تھا نہاں جس نے
سکوت ناز کو آمادۂ کلام کیا
صلہ تھا تیری ریاضت کا صبح آزادی
وہ صبح جس کو غلاموں نے ننگ شام کیا
ابھی تو گوش بر آواز تھی بھری محفل
کہاں یہ تو نے کہانی کا اختتام کیا
خیال دوست کا پرتو تھی کائنات تری
اسی تلاش میں گم ہو گئی حیات تری