رہے سلامت غم محبت کہاں کہاں اپنے کام آیا
رہے سلامت غم محبت کہاں کہاں اپنے کام آیا
صنم پرستوں میں ذکر نکلا خدا پرستوں میں نام آیا
کہوں میں کیوں بے وفا کسی کو وہ مجھ سے بے رخ نہ بے خبر ہے
ہمیشہ اس کی طرف سے مجھ کو سلام پہنچا پیام آیا
مری طرف سے گزرنے والے نہ دیکھ مجھ کو پلٹ پلٹ کر
میں وہ نہیں ہوں کہ جو پکارے حضور ٹھہریں غلام آیا
سرور و مستی ہوں میں سراپا یہ راز کیا ہے خدا ہی جانے
نہ میں نے دیکھی سبو کی صورت نہ میرے حصے میں جام آیا
لہو دیا تھا جنہوں نے اپنا رہے وہ محروم اپنے حق سے
تمام سرمایۂ بہاراں چمن فروشوں کے کام آیا
وہ دیکھو پرچم صنم کدے کا نظر میں تصویر کھنچ گئی ہے
چلو مصورؔ قدم بڑھاؤ بڑا مقدس مقام آیا