ٹھوکریں کھایا ہوا پتھر خدا ہونا ہی تھا
ٹھوکریں کھایا ہوا پتھر خدا ہونا ہی تھا
میرے گر جانے سے اس کا قد بڑا ہونا ہی تھا
اس شجر کے سوکھ جانے کا سبب تنہائی تھی
اک پرندہ آ کے بیٹھا تو ہرا ہونا ہی تھا
دام کچھ اپنے زیادہ لگ رہے تھے ان دنوں
پھر ہمیں بازار میں سب سے جدا ہونا ہی تھا
اب عمارت ڈھ رہی ہے جسم کی تو خوف کیوں
بارشوں میں بھیگنے کا شوق تھا ہونا ہی تھا
سب کو حیرت ہے کہ میں تجھ سے بچھڑ کیسے گیا
کچھ نہ کچھ تو اس کہانی میں نیا ہونا ہی تھا