رہگزر

یہ رہ گزر
رہ گزار خوباں ہے جس کا ہر موڑ کہکشاں ہے
سجل شگفتہ حسیں دل آویز خوبصورت بہار ساماں
ادھر سے گزر گیا زمانہ کہ جیسے گزرے رمیدہ آہو
جلو میں صبحوں کی مسکراہٹ
لبوں پہ روشن سی گنگناہٹ
جبیں پہ تقدیس فن کا قشقہ
نظر نظر میں سحر کے خاکے
لچکتی باہیں مہکتے گیسو
صبیح ابرو گداز بازو
قدم قدم پر پڑے ہیں حلقے
ٹھہر ٹھہر کر بجے ہیں گھنگھرو
یہ رہ گزر رہ گزار خوباں ہے جس کا ہر موڑ کہکشاں ہے
یہ رہ گزر
ہوش مند محنت کشوں کی دانش کے شاہزادوں کی رہ گزر ہے
کہ جس کا ہر موڑ جہد و فن کی علامتوں کا نگر نگر ہے
مرے رفیقو
یہ رہ گزر اک نئی ڈگر ہے
یہ رہ گزر فہم اور بصیرت کی رہ گزر ہے
مگر ابھی زلف تا کمر ہے