راز الفت عیاں نہ ہو جائے
راز الفت عیاں نہ ہو جائے
سعئ غم رائیگاں نہ ہو جائے
ناامیدی ہے اب تو وجہ سکوں
پھر کوئی مہرباں نہ ہو جائے
نگہ لطف سے نہ دیکھ ہمیں
پھر تمنا جواں نہ ہو جائے
ہم ہیں نازاں وفا پہ وہ شاکی
یوں کوئی بد گماں نہ ہو جائے
ہم تو مرتے ہیں اے وفا والو
ختم یہ داستاں نہ ہو جائے
خاکساروں کو تو حقیر نہ جان
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے
اے نشیمن کو کوسنے والو
برق خود آشیاں نہ ہو جائے
تیرے اشعار کی زمین سحرؔ
غیرت آسماں نہ ہو جائے