مابعد جدید

میں نے اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں
قلم بنا اک نظم لکھی ہے
نظم کو میں نے
کچھ ایسے ترتیب دیا ہے
سب سے پہلے ٹک ٹک کرتی
ایک گھڑی ہے
پھر ہے کلنڈر
اس کے بعد ہے
پیتل کی اک شمع دانی عیش ٹرے
پھر بیجنگ شام اور سنگاپور کی
چینی اور تانبے کی پلیٹیں
پھر تھوڑی سی جگہ بنا کے
شیشے کا گلدان رکھا ہے
اس سے آگے
مصوری اور تھیٹر پر
دو تین کتابیں
وہیں پہ ترچھی کر کے رکھی
قلقل کرتی ایک صراحی
سب کے بیچ میں ننھا سا
اک جوکر بھی ہے
یہ میری وہ پہلی نظم ہے
جس میں کوئی لفظ نہیں ہے
بس پیکر ہیں
میری پہلی نظم ہے
جو قاری اور سامع
دونوں سے آزاد ہوئی ہے
آنکھوں کی ہم راز ہوئی ہے