رات ہے کالی گھٹا ہے اور میں

رات ہے کالی گھٹا ہے اور میں
پر خطر یہ راستہ ہے اور میں


پار اترنے کی کوئی صورت نہیں
کشتیٔ بے نا خدا ہے اور میں


کس ڈگر پر آ دبوچے کیا پتہ
پیچھے پیچھے حادثہ ہے اور میں


آندھیوں کا زور کم ہوتا نہیں
پھوس کا یہ جھونپڑا ہے اور میں


اپنے اندر کی دہکتی آگ سے
ہر کوئی شعلہ نوا ہے اور میں


عافیت کی کرتے رہیے گا دعا
جال سازش کا بچھا ہے اور میں


گردش ایام کا انجمؔ سنو
سلسلہ در سلسلہ ہے اور میں