دیکھ اپنا خیال کر بابا

دیکھ اپنا خیال کر بابا
ہو گئی رات جا تو گھر بابا


دھوپ اترے گی تیرے کمرے میں
رکھ دریچے کو کھول کر بابا


یاد رکھنا مجھے دعاؤں میں
تاکہ آساں رہے سفر بابا


جس کا ہے انتظار برسوں سے
جانے کب ہوگی وہ سحر بابا


اٹھ رہا ہے اسی طرف وہ دھواں
اپنی کٹیا کی لے خبر بابا


لٹ نہ جائے متاع دل اپنی
یہ لٹیروں کا ہے نگر بابا


اس طرح گاؤں سے گیا انجمؔ
پھر نہ آیا وہ لوٹ کر بابا