راہ ضد کی نہ اختیار کرو
راہ ضد کی نہ اختیار کرو
سچی باتوں پہ اعتبار کرو
اپنے بل پر کرو جو کرنا ہو
کیوں کسی پر تم انحصار کرو
مشکلیں زندگی میں آتی ہیں
غم سے خود کو نہ ہمکنار کرو
ہر وجود بشر گھٹن میں ہے
کچھ فضاؤں کو خوش گوار کرو
عزت و قدر پاؤں چومے گی
اپنے اخلاق استوار کرو
داستاں ہے ابھی طویل بہت
جاؤ گھر کل کا انتظار کرو
فائدہ بھی ہے اس سے کیا انجمؔ
میرے زخموں کو مت شمار کرو