در پردہ کس دوا سے جبلت بدل گئی
در پردہ کس دوا سے جبلت بدل گئی
بچے بڑے ہوئے تو ضرورت بدل گئی
بازار میں گلی میں قدم پھونک کر رکھو
اب ہر جگہ کی شرح شرافت بدل گئی
گمنام تھے تو باتوں میں ان کی خلوص تھا
شہرت ملی تو صورت حالت بدل گئی
پتھر جو پھینکتے ہو ہمارے مکان پر
کیا شیشے کی تمہاری عمارت بدل گئی
برسوں کے تجربے کا خلاصہ یہی تو ہے
انگڑائی لی ذرا تو حکومت بدل گئی
قاتل پہنچتے کیفر کردار تک مگر
سارے گواہوں کی ہی شہادت بدل گئی
پہلے تو خوش مزاج تھے انجمؔ بتائیے
افتاد کیا پڑی کہ وہ عادت بدل گئی