راس آئی ہمیں نہ دل داری
راس آئی ہمیں نہ دل داری
زندگی ہو گئی ہے دکھیاری
ہار بیٹھی ہوں پیار کی بازی
میں ابھی حوصلہ نہیں ہاری
گو ستارہ سحر کا تنہا ہے
پھر بھی دیتا ہے اذن بیداری
آنکھ برسی ہے یاد میں تیری
دل میں بھڑکی ہے کوئی چنگاری
کوئی جگنو تو جاگتا ہوگا
رات گزری نہیں ابھی ساری
مائیں سہتی ہیں کس قدر دکھڑے
بہنیں ہوتی ہیں کتنی دکھیاری
اپنا جیون ہے اس طرح فرخؔ
زرد موسم میں جیسے پھلواری