راکھ
سوچ رہی ہوں
ارمانوں کے پنجرے سے
پنچھی کو آزاد کروں میں
دل کے بہلانے کو میں نے
گھر کے گل دانوں میں کب سے
مردہ خواب سجا رکھے ہیں
کمرے کو کچھ صاف کروں میں
صندل کی لکڑی کے نیچے
دھیرے دھیرے چلاتی
اک آس رکھی ہے
اک کونے میں
جیتی مرتی خواہش کی
ایک سانس پڑی ہے
جانے کتنے برسوں کی
آتش دان میں راکھ پڑی ہے