اے مسیحا مرے کیسی یہ مسیحائی ہے
اے مسیحا مرے کیسی یہ مسیحائی ہے
اتنی قربت میں بھی اک ہجر ہے تنہائی ہے
مجھ کو آباد کرو مجھ میں کوئی رنگ بھرو
دل مضطر بھی بہاروں کا تمنائی ہے
اس نے جاتے ہوئے دیکھا نہ پلٹ کر تجھ کو
تو ہے دیوانی کہ جیون ہی لٹا آئی ہے
سر فہرست ہوں اغیار کی فہرست میں میں
اور کہنے کو مری تجھ سے شناسائی ہے
گرچہ میراث ہے ولیوں کی مگر کیا کہیے
یار خاموش رہو عشق میں رسوائی ہے