گلابی شام کا آنسو

گلابی شام کی دستک
سنی تم نے
عجب ساعت میں تم نے
دل میں میرے
یاد کا اک بیج پھینکا تھا
کہ اس سے پھوٹنے والے
تمہارے اور میرے درمیاں
کچھ حاملہ لمحے
تمہیں معلوم کب ہوگا
کہ وہ تکمیل کی دہلیز پہ آتے ہوئے
کس ضبط سے گزرے
بقا کی جنگ کو ہارے
وہ سب لمحے
کہاں کس درد سے گزرے
کسی اجڑی ہوئی اب کوکھ کی مانند
بہت بے چین رہتے ہیں
اگر ممکن ہو تو سننا
کسی مردہ سروں کو جنم دیتے ساز کی آہٹ
مجھے ہے علم کہ کب وقت ہوگا ایسی باتوں کا
مگر پھر بھی
نگہ اک سرسری کرنا
تمہیں بس یہ دکھانا ہے
بہت بے چین رکھتی ہے
طلب جب بین کرتی ہے
تو پڑتی ہے
گلابی شام پہ سلوٹ