رائیگاں عشق کا انجام کہاں ہوتا ہے

رائیگاں عشق کا انجام کہاں ہوتا ہے
اب مرا غم ترے چہرے سے عیاں ہوتا ہے


آج منہ موڑ کے جانے لگیں یادیں اس کی
آج تاراج مرا کوچۂ جاں ہوتا ہے


گردش وقت غلط نکلا ترا اندازہ
ٹھوکریں کھا کے مرا عزم جواں ہوتا ہے


ٹیس جب دل میں ابھرتی ہے تری یادوں کی
تب کہیں اپنے بھی ہونے کا گماں ہوتا ہے


اے فلک کیا مجھے دکھلاتا ہے تو چاند اپنا
اس سے روشن تو مرے دل کا دھواں ہوتا ہے


ایسا طوفان بلا خیز ہے اس کا انداز
بے طناب آج مرا خیمۂ جاں ہوتا ہے


آسماں والے ہیں کیوں محو سماعت اے مجیبؔ
کون گویا یہ سر نوک سناں ہوتا ہے