قومی زبان

لہو کا خراج

زرد ہاتھوں پر کالی لکیریں پھیل رہی ہیں دل کے نہال پر جذبوں کے پنچھی کالی اندھیری راتوں میں ناچ ناچ کے تھک جاتے ہیں آنکھ کنارے آ گئی کائی بڑھتی ہے روشن صبحوں کی آوازیں بے بس چیخوں کو کیسے روکیں ہر دن اپنے ہونے کی پہچان میں گم صم شرمندہ کونوں میں منہ کو چھپائے روتا ہے کس کی آس میں ...

مزید پڑھیے

میلا کپڑا

بادل بادل اس کے قطرے گہری اداس چھاؤں ہوائیں بیوہ کی چوڑیوں کی طرح سے چھن چھن ٹوٹ رہی ہیں یہ کیسا ساون ہے دل میں کالا ناگ یاں ڈنک مارتا ہے میں بادل روؤں کہ خون تھوکوں خون کہ قطرہ قطرہ رات کے خوف سے خشک ہوا ہے رات مجھے اپنے ہاتھ سے مسل رہی ہے میں میلا کپڑا ہوں جو نہ پہننے کے کام آئے ...

مزید پڑھیے

ایک نظم

آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہیں ہیں گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر کند چھری کی مانند اٹکے کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پرواہ لب پر اتریں معافی کے ...

مزید پڑھیے

دکھ کا ذائقہ

میرے لوگو دکھ سے سمجھوتہ نہ کرنا ورنہ دکھ بھی کڑواہٹوں کی طرح تمہارے ذائقے کا حصہ بن جائے گا تم دکھ کے بارے میں غور کرنا اس کی ماہیت جاننا اس کی تم ڈرائنگ کرنا اور سر جوڑ کر اس تصویر سے باتیں کرنا گلی کے باہر میدانوں میں کھیتوں میں گھر کی چھتوں کے اوپر ہر طرف باتیں کرنا دکھ کی آنے ...

مزید پڑھیے

موت میری سکھی

موت میری سکھی میرے ہی سنگ آنگن میں کھیلی بڑھی میری پوشاک میرے دوپٹے پہ وہ اپنے ہی پیارے ہاتھوں سے چاند اور تارے اگاتی رہی زندگانی سے مجھ کو لڑاتی رہی موت میری سکھی میرے ہی سنگ کھانے کے لقمے بھرے میں بھری چاند راتوں میں مٹی کی کوری صراحی سے پانی پلاتی رہی سردیوں کی ٹھٹھرتی سیاہ ...

مزید پڑھیے

کرموں کا پھل

ہمارے کرموں کا پھل ہمارے سامنے ہے بھائی نیکی کرنا پاپ ہے تم نے نہیں سنا کہ یہ اگلے وقتوں کی بات ہے تم کو دنیا میں رہنے کا ڈھب کب آئے گا جنگلی سارے ناطے خوشبوؤں کی طرح نہیں ہوتے ان میں دلدلوں کی بساند بھی ہوتی ہے معاف کرنا یا معافی مانگنا کوئی اچھا فعل نہیں ہے معافی بھلا کس کس بات ...

مزید پڑھیے

نئی آستین

نہ میرے زہر میں تلخی رہی وہ پہلی سی بدن میں اس کے بھی پہلا سا ذائقہ نہ رہا ہمارے بیچ جو رشتے تھے سب تمام ہوئے بس ایک رسم بچی ہے شکستہ پل کی طرح کبھی کبھار جواب بھی ہمیں ملاتی ہے مگر یہ رسم بھی اک روز ٹوٹ جائے گی اب اس کا جسم نئے سانپ کی تلاش میں ہے مری ہوس بھی نئی آستین ڈھونڈھتی ہے

مزید پڑھیے

آخری کھلونے کا ماتم

میں سوتیلا بیٹا اپنے باپ کی تیسری بیوی کا ان تینوں میں پہلے میری ماں آئی پھر میں آیا لیٹا بیٹھا کھڑا ہوا دیوار پکڑ کر چلنا جب آیا تو ماں کو روگ لگا میرے کھلونے سستے اور مٹی کے تھے سب ٹوٹ گئے باری باری سب کی خاطر رویا میں لیکن ماں کے مرنے پر میں رویا نہیں ٹوٹا تھا اور بکھرا تھا جیسے ...

مزید پڑھیے

ڈاکہ

کالے کالے ڈاکو چھت پر دھم دھم کرتے دوڑ رہے ہیں کمروں سے سب بکس اٹھا کر چھت پر لا کر بے رحمی سے توڑ رہے ہیں ان بکسوں میں ایک بڑا سا بکس ہے میری ماں کا بھی جس میں میری شیشے والی گولی کی تھیلی رکھی ہے اس بکسے کے ٹوٹنے پر میں خوش ہوتا ہوں چھت پر جا کر بندوقوں کے سائے میں اپنی سب گولی ...

مزید پڑھیے

سنگاپور

سات سمندر پار گئے ہیں نانا جان دیووں پریوں کا ایک دیس ہے سنگاپور سنگاپور سے جب آئیں گے شیشے کی گولی لائیں گے نئے نئے کپڑے لائیں گے گیند بھی اک خربوزے والی جس میں لال ہرے پیلے سب رنگ رہیں گے لیکن جب میں سوچتا ہوں تو ڈر لگتا ہے دیو کہیں نانا سے میرے ساری چیزیں چھین نہ لیں چھینیں گے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 908 سے 6203