ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے کچھ ہنر چاہیئے بازار میں رہنے کے لیے اب تو بدنامی سے شہرت کا وہ رشتہ ہے کہ لوگ ننگے ہو جاتے ہیں بازار میں رہنے کے لیے
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے کچھ ہنر چاہیئے بازار میں رہنے کے لیے اب تو بدنامی سے شہرت کا وہ رشتہ ہے کہ لوگ ننگے ہو جاتے ہیں بازار میں رہنے کے لیے
میرے گھر کی دیواریں اب مجھ کو چاٹ رہی ہیں سارے شہر کی مٹی میں جو میرا حصہ تھا وہ بھی لوگوں میں تقسیم ہوا ہے اپنی اس کی قبر پر میری آنکھیں اڑتی دھول کی خوشبو تھامے لٹک کر لیٹ گئی ہیں ایسے سمے اب کون آتا ہے ٹیڑھی ترچھی انگلیوں میں سارے وفا کے دھاگے ہلکے ہلکے ٹوٹ رہے ہیں ہڈیوں کے جلنے ...
تم سب لوگ مجھے قطرہ قطرہ دریا میں بہا دو میرے وجود کو تار تار کرکے دیکھو پھر بھی تمہیں میری روح تک پہنچنے کے لیے اپنی کمیں گاہوں کے رستے سے گزرنا ہوگا تم مجھے نہیں پاؤ گے اس لیے کہ میں تم میں سے نہیں ہوں مجھے تمہارے گھر صرف ایک آبزرور کی حیثیت سے رکھا گیا ہے تاکہ تمہاری منافقتوں ...
تجھ کو سوچوں تو ترے جسم کی خوشبو آئے میری غزلوں میں علامت کی طرح تو آئے میں تجھے چھیڑ کے خاموش رہوں سب بولیں باتوں باتوں میں کوئی ایسا بھی پہلو آئے قرض ہے مجھ پہ بہت رات کی تنہائی کا میرے کمرے میں کوئی چاند نہ جگنو آئے لگ کے سوئی ہے کوئی رات مرے سینے سے صبح ہو جائے کہ جذبات پہ ...
ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے پھر بھی سورج مرے پودے کا بھلا چاہتا ہے ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا ...
دھوپ سے بر سر پیکار کیا ہے میں نے اپنے ہی جسم کو دیوار کیا ہے میں نے جب بھی سیلاب مرے سر کی طرف آیا ہے اپنے ہاتھوں کو ہی پتوار کیا ہے میں نے جو پرندے مری آنکھوں سے نکل بھاگے تھے ان کو لفظوں میں گرفتار کیا ہے میں نے پہلے اک شہر تری یاد سے آباد کیا پھر اسی شہر کو مسمار کیا ہے میں ...
گوشت مچھلی سبزیاں بنیے کا راشن دودھ گھی مجھ کو کھاتی ہیں یہ چیزیں میں نے کب کھایا انہیں میرا گھر رہتا ہے مجھ میں گھر میں میں رہتا نہیں بیوی بچوں کے پھٹے کپڑوں میں ہوں اور نئے جوڑوں کی خوشیوں میں چھپا جو کرب ہے وہ بھی ہوں میں فیس میں اسکول کی کاپی کتابوں میں بھی میں میں ہی ہوں ...
گھر سے بستہ اور ٹفن کے ساتھ نکلنا مکتب کو آدھے ہی رستے سے گھوم کے واپس آنا شام ڈھلے تک کھیلنا کودنا جھگڑے کرنا پھر مل جانا باغ سے جا کر آم چرانا پکڑے جانا گھر پر آ کر ڈانٹیں سننا کبھی کبھی تھپڑ بھی کھانا گنے کے مرجھائے اور کالے پھولوں سے نقلی داڑھی مونچھ بنانا چھپ کر جوٹھی بیڑی ...
اللہ جی ہم سو نہیں پاتے امی کو کب بھیجو گے نانی کہتی ہیں تم ہم سے روٹھے ہو لیکن اب ہم روزانہ مکتب جائیں گے تم کو تختی پر لکھیں گے اسلم مسٹر گندے ہیں ان کے ساتھ نہیں کھلیں گے اللہ جی اب مان بھی جاؤ چاہو تو امی کے بدلے ہم سے ساری چیزیں لے لو گیند بھی لے لو اور گولی بھی لٹو اور غلیل بھی ...
تمہارا میں ہوں مرے تم ہو اچھے جملے ہیں مگر یہ بات بہت دور ہے صداقت سے کہیں سے تم ہو ادھورے کہیں سے خالی میں تم اپنے طور مجھے استعمال کرتے ہو میں اپنے طور تمہیں استعمال کرتا ہوں یہ زندگی ہے یہاں گھات میں ہے ہر کوئی سب اپنی اپنی ضرورت میں چھپ کے بیٹھے ہیں کہیں نہیں ہے محبت فریب ہے سب ...