جب تم مجھ سے ملنے آؤ
تمہاری اپنی دنیا ہے تمہارے روز و شب شام و سحر اپنے تم اک آزاد پنچھی ہو مری جاگیر کا حصہ نہیں ہو تم مگر کل شام جب تم مجھ سے ملنے آؤ (جیسا تم نے لکھا ہے) تو آنکھوں میں ذرا کاجل لگا آنا
تمہاری اپنی دنیا ہے تمہارے روز و شب شام و سحر اپنے تم اک آزاد پنچھی ہو مری جاگیر کا حصہ نہیں ہو تم مگر کل شام جب تم مجھ سے ملنے آؤ (جیسا تم نے لکھا ہے) تو آنکھوں میں ذرا کاجل لگا آنا
وہ غنی ساعت کہ ہم شاکی نہ ہوں یا یوں کہیں خاکی نہ ہوں صد حیف افلاکی نہ ہوں کاش اس غنی ساعت میں اک کار غنیمت ایسا ہو مٹی بدن کی روح کی تہذیب سے ہموار ہو بے دار ہو یہ نقش پائے رفتگاں روشن مثال کہکشاں سب روح کی تہذیب سے بے دار مٹی کی نمو ہے عکس ہو ہے روح کی تہذیب یا اک سلسلہ جس میں عدم ...
اپنے ہونے اور نہ ہونے میں خوشی کی غم کی اطمینان کی تحقیق بے مصرف ہے اور اک سعئ لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں یہ زندگی اک جنگ تحمیلی ہے اور میں بے نتیجہ جنگ کا سر باز ہوں کوئی جو بیہودہ سوالوں سے ازل سے بر سر پیکار ابد آثار نا پیدا مائل تار ابریشم وجود اک کرم کی مانند غائب ہو رہا ہے ...
مجھے ودیعت ہوئی ہے جب تک تمہاری آنکھیں مقام بینائی تک نہ پہنچیں سفید کاغذ کی روشنی کو سیاہ الفاظ سے مسلسل چھپائے رکھوں کہا گیا ہے یہ قول بھی دوں جب آنکھیں خیرہ نہ ہوں گی (یعنی مقام بینائی پر پہنچ جائیں گی) تو کاغذ سیاہ کرنا میں چھوڑ دوں گا نفی موعود ہیں یہ الفاظ اصل اثبات چشم ...
وہ بات اگر میں خدا سے کہتا میں جانتا ہوں وہ سن بھی لیتا (جواب دینے کی کوئی میعاد طے نہیں ہو تو صرف سننے میں حرج کیا ہے) میں مانتا ہوں جواب وہ ایک روز دیتا پہ خواہشوں نے مری سماعت کو معتبر ہی کہاں ہے رکھا یہ خواہشیں ہیں کہ میرے کانوں میں روئی سا کچھ نہاں ہے رکھا میں سوچتا ہوں وہ بات ...
عقائد کرم خوردہ خط نامعلوم میں لکھی کتابوں میں کہیں محفوظ ہیں معلوم کی بنیاد نامعلوم پر اک مضحکہ یہ سلسلہ منسوخ کب ہوگا میں جو کچھ مانتا ہوں جانتا ہوگا مجھے یہ جاننا ہوگا کہ میں اک دن درون قبر زیر خاک خاک سرد و نا ہموار میں سو جاؤں گا اور میرے چہرے ہونٹوں آنکھوں میں چلیں گی ...
خیابان دانش گہہ ممبئی سے یہاں راج پتھ کے سفر تک ہمیشہ مرے زیر پا شاہراہیں رہی ہیں اعلیٰ عمارات سرسبز میداں دو رویہ قطاروں میں اشجار فرحاں تمدن کے غماز بے مثل نقل و حمل کے ذرائع تحفظ کو جاں باز سر باز ہر گام آنکھیں بچھائے میں اک بچہ قریۂ دور افتادہ لیکن مرے بخت میں آج تک پائے ...
مجھے اپنے بیرون کی جستجو تھی کہ وہ آنکھ سے اپنی دیکھا تھا میں نے جزائر وہ سب ریختہ نا رسیدہ جزائر خلاؤں میں بکھرے گرے زیست آثار کے شائبے جن میں تھے اب مری جستجو یا ہوس کا ہدف بن گئے تھے میں ان کی تمنا لیے دل کش و مست راہوں میں اک عمر گھوما کیا ماہ و انجم کو چوما کیا اور کل شام بعد ...
تمہاری آنکھ بھی ہر روز کاجل سے سنورتی ہے مجھے بھی شیو کرنے میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا
کل شام ٹی وی پر بدلتے وقت کے موضوع پہ تم نے کہی تھیں جتنی بھی باتیں بڑی دلچسپ تھیں وہ اور مدلل بھی اسی دوران اک خواہش ہوئی دل میں مری ٹیبل پہ جو تصویر رہتی ہے تمہاری اور ٹی وی پر دکھائی دینے والے چہرے کو اک بار دیکھوں تو ذرا لیکن مری عینک کہیں گم ہو گئی تھی