لوح ایام

عقائد کرم خوردہ
خط نامعلوم میں لکھی کتابوں میں
کہیں محفوظ ہیں
معلوم کی بنیاد نامعلوم پر
اک مضحکہ
یہ سلسلہ منسوخ کب ہوگا
میں جو کچھ مانتا ہوں جانتا ہوگا
مجھے یہ جاننا ہوگا
کہ میں اک دن
درون قبر زیر خاک
خاک سرد و نا ہموار میں سو جاؤں گا
اور میرے چہرے ہونٹوں آنکھوں میں
چلیں گی چیونٹیاں رستے بنا دیں گی
ہوا تھا رونما جس سے مجھے اس میں ملا دیں گی
مجھے یہ جاننا ہوگا
کہ اک دن میں نہیں ہوں گا
مگر یہ روز و شب
یہ شادی و غم
دشت دریا کوہ
اور یہ زندگی کا شور با تغییر سب باقی رہے گا
ہاں مجھے یہ جاننا ہوگا
کہ گرچہ میں نہیں ہوں گا
یہ میرا حق و نا حق
ثبت ہوتا جا رہا ہے
اور سدا باقی رہے گا