شکست

مجھے اپنے بیرون کی جستجو تھی
کہ وہ آنکھ سے اپنی دیکھا تھا میں نے
جزائر
وہ سب ریختہ نا رسیدہ جزائر
خلاؤں میں بکھرے گرے
زیست آثار کے شائبے جن میں تھے
اب مری جستجو یا ہوس کا
ہدف بن گئے تھے
میں ان کی تمنا لیے
دل کش و مست راہوں میں
اک عمر گھوما کیا
ماہ و انجم کو چوما کیا


اور کل شام
بعد از سفر
باہزاراں ظفر
اپنے بیرون کی دستیابی کے
جشن طرب میں
میں جب شادماں تھا
یکایک نگہ
اندروں کی طرف مڑ گئی
اک شکست عجب ذات سے جڑ گئی