اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے
اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے شام ڈھل جائے تو رہ گیر بھی گھر کو ترسے خالی جھولی لیے پھرتا ہے جو ایوانوں میں میرا شفاف ہنر عرض ہنر کو ترسے جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دیئے پھر اسی گاہ پہ دل دار نظر کو ترسے میری بے خواب نگاہیں ہیں سمندر شب ہے وقت تھم تھم کے جو گزرے ہے سحر ...