آہ زخمی ہے دل شکستہ ہے

آہ زخمی ہے دل شکستہ ہے
ہائے آنکھوں سے خوں برستا ہے


ہو گئی ہیں لہو لہو سانسیں
روح کو آ کے کوئی ڈستا ہے


آ گیا ہے تو جا نہیں سکتا
دل کی دنیا میں کوئی بستا ہے


فرق کوئی نہیں ہے دونوں میں
زندگی موت ہی کا رستہ ہے


ساری دنیا میں مہنگا ہے پانی
خوں زمانے میں آج سستا ہے


لاش اپنی لئے بھٹکتا ہوں
جسم ہے روح کو ترستا ہے


ایک دل ہی نہیں ہے اے توقیرؔ
روح زخمی ہے جسم خستہ ہے