قومی زبان

دشت کی خاک بھی چھانی ہے

دشت کی خاک بھی چھانی ہے گھر سی کہاں ویرانی ہے ایسی پیاس اور ایسا صبر دریا پانی پانی ہے کشتی والے ہیں مایوس گھٹنوں گھٹنوں پانی ہے کوئی یہ بھی سوچے گا کیسے آگ بجھانی ہے ہم نے چکھ کر دیکھ لیا دنیا کھارا پانی ہے ایک برس اور بیت گیا کب تک خاک اڑانی ہے

مزید پڑھیے

ہوا کے وار پہ اب وار کرنے والا ہے

ہوا کے وار پہ اب وار کرنے والا ہے چراغ بجھنے سے انکار کرنے والا ہے خدا کرے کہ ترا عزم برقرار رہے زمانہ راہ میں دیوار کرنے والا ہے وہی دکھائے گا تجھ کو تمام داغ ترے جسے تو آئنہ بردار کرنے والا ہے یہ وار تو کبھی خالی نہیں گیا میرا کوئی تو اس کو خبردار کرنے والا ہے اسی نے رنگ بھرے ...

مزید پڑھیے

سب کے آگے نہیں بکھرنا ہے

سب کے آگے نہیں بکھرنا ہے اب جنوں اور طرح کرنا ہے کیا ضرورت ہے اتنے خوابوں کی دشت شب پار ہی تو کرنا ہے آ گئے زندگی کے جھانسے میں ٹھان رکھا تھا آج مرنا ہے پوچھنا چاہیئے تھا دریا کو ڈوبنا ہے کہ پار اترنا ہے بینڈ باجا ہے تھوڑی دیر کا بس رات بھر کس نے رقص کرنا ہے

مزید پڑھیے

داغ ہونے لگے ظاہر میرے

داغ ہونے لگے ظاہر میرے تیز کر رنگ مصور میرے میری آنکھوں میں سیاہی بھر دے یا ہرے کر دے مناظر میرے نقرئی جھیل بلاتی تھی انہیں پھنس گئے جال میں طائر میرے کون تحلیل ہوا ہے مجھ میں منتشر کیوں ہیں عناصر میرے ہے کہاں شنکھ بجانے والا کب سے خاموش ہیں مندر میرے سنگ سے جسم بھی کر اب ...

مزید پڑھیے

دل میں جب تک نہ بے کلی ہوگی

دل میں جب تک نہ بے کلی ہوگی کتنی بے جان زندگی ہوگی بات جو مجھ میں شور کرتی ہے مجھ سے کہنے کو رہ گئی ہوگی آج چہرے پہ ہے سکوں میرے جیت خود پر مری ہوئی ہوگی زندگی پر لگا نہ ہر الزام کچھ خطا تیری بھی رہی ہوگی دل میں کچھ کرنے کی تمنا رکھ زندگی ورنہ موت سی ہوگی بیتی باتوں پہ تو نہ رو ...

مزید پڑھیے

اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا

اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا وہی تو دن تھے اجالوں کے پھول چننے کے انہیں دنوں میں اندھیروں کے انتخاب میں تھا بس اتنا یاد ہے کوئی بگولا اٹھا تھا پھر اس کے بعد میں صحرائے اضطراب میں تھا مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں مرے زوال کا ...

مزید پڑھیے

دل کھنڈر میں کھڑے ہوئے ہیں ہم

دل کھنڈر میں کھڑے ہوئے ہیں ہم بازگشت اپنی سن رہے ہیں ہم مدتیں ہو گئیں حساب کئے کیا پتا کتنے رہ گئے ہیں ہم جب ہمیں سازگار ہے ہی نہیں جسم کو پہنے کیوں ہوئے ہیں ہم رفتہ رفتہ قبول ہوں گے اسے روشنی کے لیے نئے ہیں ہم وحشتیں لگ گئیں ٹھکانے سب دشت کو راس آ گئے ہیں ہم دھن تو آہستہ بج ...

مزید پڑھیے

ذرا لو چراغ کی کم کرو مرا دکھ ہے پھر سے اتار پر

ذرا لو چراغ کی کم کرو مرا دکھ ہے پھر سے اتار پر جسے سن کے اشک چھلک پڑیں وہی دھن بجاؤ ستار پر ذرا حیرتوں سے نکل تو لوں ذرا ہوش آئے تو کچھ کہوں ابھی کچھ نہ پوچھ کہ کیا ہوا مرا دھیان ابھی ہے غبار پر کہیں حرف حرف گلاب ہے کہیں خوشبوؤں سے خطاب ہے میں خزاں نصیب سہی مگر مرا تبصرہ ہے بہار ...

مزید پڑھیے

کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے

کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے یہ سنتے ہی وہ پتھر ہو گیا ہے جدائی کا ہمیں امکان تو تھا مگر اب دن مقرر ہو گیا ہے سبھی حیرت سے مجھ کو تک رہے ہیں یہ کیا تحریر مجھ پر ہو گیا ہے اثر ہے یہ ہماری دستکوں کا جہاں دیوار تھی در ہو گیا ہے جسے دیکھو غزل پہنے ہوئے ہے بہت سستا یہ زیور وہ گیا ہے

مزید پڑھیے

زندگی کی ہنسی اڑاتی ہوئی

زندگی کی ہنسی اڑاتی ہوئی خواہش مرگ سر اٹھاتی ہوئی کھو گئی ریت کے سمندر میں اک ندی راستہ بناتی ہوئی مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے ایک تصویر مسکراتی ہوئی آ گئی خامشی کے نرغے میں زندگی مجھ کو گنگناتی ہوئی میں اسے بھی اداس کر دوں گا صبح آئی ہے کھلکھلاتی ہوئی ہر اندھیرا تمام ہوتا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 469 سے 6203