ذرا لو چراغ کی کم کرو مرا دکھ ہے پھر سے اتار پر

ذرا لو چراغ کی کم کرو مرا دکھ ہے پھر سے اتار پر
جسے سن کے اشک چھلک پڑیں وہی دھن بجاؤ ستار پر


ذرا حیرتوں سے نکل تو لوں ذرا ہوش آئے تو کچھ کہوں
ابھی کچھ نہ پوچھ کہ کیا ہوا مرا دھیان ابھی ہے غبار پر


کہیں حرف حرف گلاب ہے کہیں خوشبوؤں سے خطاب ہے
میں خزاں نصیب سہی مگر مرا تبصرہ ہے بہار پر


مرے دوست تجھ کو ہے کیا پتا تجھے دے رہے ہیں جو مشورہ
یہی لوگ جشن منائیں گے مری جیت پر تری ہار پر


جہاں ہر سنگار فضول ہوں جہاں اگتے صرف ببول ہوں
جہاں زرد رنگ ہو گھاس کا وہاں کیوں نہ شک ہو بہار پر