تمام ریت پہ بکھرا ہے تن اداسی کا

تمام ریت پہ بکھرا ہے تن اداسی کا
وہ لہر ہے یا کوئی پیرہن اداسی کا


ہے اک دریچہ جہاں سے وہ دیکھتی ہے اتیت
سو لگ گیا مرے کمرے میں من اداسی کا


میں اس کی چھاؤں میں بیٹھوں تو جسم جلتا ہے
مرے شجر پہ لگا ہے گہن اداسی کا


ہمارے عشق کو قدرت نے جان بخشی ہے
تم اک سکوت ہو اور میں ہوں بن اداسی کا


تمہارے ہجر میں اک موت اور اس کے بعد
ہماری روح نے پکڑا بدن اداسی کا