قصے سب کھل گئے چھپائے ہوئے
قصے سب کھل گئے چھپائے ہوئے
رنگ اڑنے ہی تھے بنائے ہوئے
اس زباں سے نئے لگے مجھ کو
سارے جملے سنے سنائے ہوئے
چل مرے ساتھ کچھ خبر تو لے
لوگ ہیں یہ ترے ستائے ہوئے
دیکھتے دیکھتے کھنڈر ہو گئے
باپ دادا کے گھر بسائے ہوئے
میرا کچھ دیر رونا لازم ہے
خواب تھے عمر بھر سجائے ہوئے
کوئی اپنا ملا تو بانٹیں گے
غم بہت بڑھ گئے چھپائے ہوئے