نظم غزلوں کے سوا کچھ بھی نہیں

نظم غزلوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اس سے بڑھ کر اور مزہ کچھ بھی نہیں


غم چھپانے میں مہارت ہے مجھے
تم سمجھتے ہو ہوا کچھ بھی نہیں


میں اسے للکار آئی ہوں مگر
میرے اندر حوصلہ کچھ بھی نہیں


رات محفل میں سحرؔ کا ذکر تھا
خواب اس سے خوش نما کچھ بھی نہیں