کیا ہوئی مجھ سے خطا معلوم کر
کیا ہوئی مجھ سے خطا معلوم کر
کیوں ملی ہے یہ سزا معلوم کر
ہو رہا ہے ذکر اس کا ہر کہیں
کیا شگوفہ ہے نیا معلوم کر
سرکشی کی ہے ہمیں عادت بہت
تو ہواؤں کی دشا معلوم کر
چاک دل ہے کانپتے لب آنکھ نم
مرض میرے کی شفا معلوم کر
رک گئے بے ساختہ میرے قدم
یہ اچانک کیا ہوا معلوم کر
نیم شب آواز آتی ہے مجھے
کون دیتا ہے صدا معلوم کر
چند ہی محرومیوں سے تھک گئے
ایک مفلس کی دشا معلوم کر