قصے بچپن کے جو اک روز سہانے نکلے

قصے بچپن کے جو اک روز سہانے نکلے
دشمنوں میں ہی کئی دوست پرانے نکلے


کر لیا ترک تعلق کا ارادہ تو اسے
میری ہر بات میں پھر کتنے بہانے نکلے


سوکھتی کاشت پہ اک روز جو برسا پانی
ننھے بچے سبھی گاؤں کے نہانے نکلے


قافلے یادوں کے یک لخت دبے پاؤں سے
میری آنکھوں سے مری نیند چرانے نکلے


شمع اک سمت جلی اور ادھر پروانے
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے


رخ جو پژمردہ کسی شوخ کا دیکھا تو لگا
کیسے گزری ہے شب غم یہ بتانے نکلے


نذرؔ پھر آیا ہے اک رسم نبھانے کا دن
سج سنور کے سبھی راون کو جلانے نکلے